گھر کا بھیدی ہوں کسی بات کا پردہ نہ کرو
کون سے روز نیا روزنِ دیوار نہیں
گلوریاں کھانا اور بے دھڑک ہم کو بے حجاب دیکھ جانا اور پتن٘گ ڈھانا اور خط بھجوانا ، سارا کچّا چٹّھا کسی گھر کے بھیدی نے دولھا بھائی سے کہہ دیا.
(۱۸۸۰ ، فسانہ آزاد ، ۲: ۳۳).
نوکری میں آنے کے بعد گھر کا بھیدی بن کر دوسرے پاکستانی قبائل کی عسکری قوّت بیدردی کے ساتھ کچل دینْے میں سکنْدر کا پورا پورا ہاتھ بٹایا.
(۱۹۸۷ ، سات دریاؤں کی سرزمین ، ۲۴۴).