چشم اس طرح اگر خونِ جگر روتی ہیں
میرا کیا جائے گا اپنا ہی وہ گھر کھوتی ہیں
یہ کیا خیال گھر کھونے کا دل میں سمایا.
(۱۸۵۵ ، طلسم حکیم اشراق ، ۲ الف).
اس بے وقوف نے تو اپنی عقلمندی سے گھر کھویا ہی تھا مگر یوں کہیے کہ خدا نے ہماری طرف دیکھ لیا ، نہیں تو عمر بھر سر پر ہاتھ رکھ کر روتی.
(۱۹۱۰ ، لڑکیوں کی انشا ، ۳۵).