حضرت علیؓ مولود تھے سب مومناں کا عید ہے
یاراں خوشیاں گھر گھر کرواے دوستاں کا عید ہے
چُھپا راز رکھنا تو ہوئی جیو یہ خوار
جو بولوں تو ہویگا گھر گھر پکار
مکھ ترا آفتابِ محشر ہے
شور اس کا جہاں میں گھر گھر ہے
سیم و زر ہی پہ فقط کچھ نہیں موقوف صلا
لینے کو لعل و گُہر کہتے ہیں گھر گھر اشعار
مصر میں ایک ہی یوسف تھے یہاں کی نہ کہو
لکھنؤ شہر وہ ہے جس میں ہیں گھر گھر معشوق
اس وقت زبان کی اشاعت کے تین ذریعے ہوسکتے ہیں ، ایک اخبارات کا جن کا پیام گھر گھر پہنچتا ہے.
(۱۹۳۶ ، خطباتِ عبدالحق ، ۵۹).
بل ہاروں نے گھر گھر جا جاکر کاشت کار سے ادائیگی کی تیّاری کا حکم دیا.
(۱۹۸۷ ، ابوالفضل صدیقی ، ترنگ ، ۳۱۳).
[ گھر + گھر (رک) ].