بھلا حاصل جو دیدے دھوے دھائے سات پانی سے
کہ یاں گھر گھاٹ سب معلوم ہے اونکی صفائی کا
غرض تماش بینوں کو بھن٘سانے کے جتنے گھر گھاٹ اور جتنے چونگے ہیں سب بتلا دیئے.
(۱۹۱۱ ، پہلا پیار ، ۳۰).
بیگما جاہ کے دریا کے بڑے پاٹ کو سوچ
بے دھڑک پاؤں نہ دھر پہلے تو گھر گھاٹ کو سوچ
جن کا کوئی گھر گھاٹ نہیں . . . اوں کو جلا وطن کردیا جائے.
(۱۸۹۳ ، بست سالہ عہد حکومت ، ۵۵۰).
نہ انہیں اپنی جنم بھرمی کی چاہ رہتی ہے نہ گھر گھاٹ کی.
(۱۹۴۹ ، نگارخانہ ، ۵۸).
سیّاح کو . . . گھر گھاٹ کے بندھنوں سے نجات دلا کر نئی سرزمینوں کی سیر پر اکساتے رہتے ہیں.
(۱۹۸۷ ، اُردو ادب میں سفرنامہ ، ۶۷).
مجھ کو فقروں میں کیا اُڑاتے ہو
جانتا ہوں جناب کا گھر گھاٹ
[ گھر + گھاٹ (رک) ].