دیکھو تو سہی یہ ہیں تمیزداری کی باتیں کہو اب تو تمہیں گھر ور نہیں یاد آتا.
(۱۸۹۹ ، ہیرے کی کنی ، ۲۴).
آپ فقط شادی کر لیجیے گھر ور کا انتظام ہمارے ذمہ رہا.
(۱۹۴۸، پرواز ، ۱۳۴).
وہ سخت بیمار ہیں میں گھر ور کچھ نہیں بند کررہی ہوں.
(۱۹۷۱ ، فہمینہ ، ۲۰).
[ گھر + ور (تابع) ].