ہر لمحہ ٹہونکے اور کچوکے دے دے کر یاد دلایا جاتا ہے کہ تُو اس گھر کی لونڈی ہے.
(۱۹۳۵، دودھ کی قیمت ، ۱۷۰).
زبان تو اُن کے گھر کی لونڈی ہے.
(۱۹۲۸ ، آخری شمع ، ۷۰).
زبان ان کے گھر کی لونڈی تھی اور بیان کا زور انہیں ورثے میں ملا تھا.
(۱۹۸۵، بزمِ خوش نفساں ، ۸).