ان چھنال نے میرا گھر گھالی ، ان چھنال نے مجھے دیس انتر دی.
(۱۶۳۵ ، سب رس ، ۲۳۶).
گردشِ چشم دِکھا مجکوں دیے ہیں بالے
گوشۂ چشم ستی دیکھ بہت گھر گھالے
شکر اللہ کہ میرے پان٘وں پہ گِرتے ہیں وہ شوخ
ویسے کوئی خانہ خرابوں کے جو گھر گھالے ہیں
ابھی تو تم نے پردے میں ہی ایک عالم کا گھر گھالا
مجھے تو فکر ہے صورت دکھاؤ گے تو کیا ہوگا
جذبۂ عشق کی یہ کہہ کر تحقیر کی کہ اس نے سینکڑوں گھر گھالے ہیں.
(۱۹۷۹ ، دریا آخر دریا ہے ، ۱۳).