دل چرایا ہے وہ اب آنکھ ملائیں کیونکر
سامنے ہوتی ہے مشکل سے گنہگار کی آنکھ
ازرق تھا فکر میں کہ بڑے پیچ پڑگئے
آنکھوں میں فرق آگیا بیٹے بچھڑ گئے
حاکم کے آنکھ نہیں ہوتی کان ہوتے ہیں .
(۱۸۹۵، فرہنگ آصفیہ ، ۱ : ۲۵۳)
جو دیکھے آنکھ سے انکار کی سوے یوسف
پتا وہ شکل کا اس کی بھی دیوے زشتی سے
دبدبہ بھی ہے وہی طرز سخن بھی ہے وہی
آنکھ بھی ہے وہی ابرو کی شکن بھی ہے وہی
آنکھ اسے کہیے جو دیکھے وہ جمال
کان وہ ہے جو سنے گفتار یار
سنی سنائی پہ ایقان واہ کیا کہنا
بغیر آنکھ کے عینی گواہ کیا کہنا
حسن کب ان کو نظر آتا ہے
آنکھ جن کی ہے قباحت کی طرف
صاحب کی آنکھ اب جو عروس اجل پہ ہے
اپنی بھی آنکھ خالق عزو جل پہ ہے
کس مزے سے یہ باظہار وفا اس نے کہا
مت بنا بات نہیں اب تری جھوٹے وہ آنکھ
دم توڑتی ہوں پیاس سے تم پر اثر نہیں کل تک جو تھی وہ انکھ نہیں وہ نظر نہیں
(۱۹۶۵، منظور راے پوری ، مرثیہ ، ۷)
دکھلائے ہم نے لے کے جو دامن پہ در اشک
قائل ہماری آنکھ کے سب جوہری ہوئے
اس کے خاوند کو جواہرات کی آنکھ تھی .
(۱۹۴۴، افسانچے ، کیفی ، ۱۳۶)
جن مردماں کو آنکھیں دیا ہے خدا نے وے
سرمہ کریں ہیں رہ کی تری خاک دھول کا
میں دعا دیتا ہوں کہ خدا پٹنہ والوں کو سمجھ اور آنکھ دے .
(۱۹۲۴، مکتوبات شاد عظیم آبادی ، ۱۹۱)
یاد ہے اب بھی اے میاں مخلص
کہ تمھیں آنکھ سے بلاتے تھے
صحبت کا رقیبوں کی ہے ادنیٰ یہ کرشمہ
جو آنکھ سے فرماتے ہیں وہ دل میں نہیں ہے
ہشیار اسیر آنکھ ہے تجکو جو سخن میں
غافل ہے وہ فن سے جو کہے خواب کا پھاہا
جو لوگ کہ رکھتے ہیں اسیر آنکھ سخن میں
رکھتے ہیں وہ سر پر میرے دیواں کو ادب سے
مثال کے لیے دیکھیے : آنکھ رکھنا .
-
آنکھ لگتے ہی جان کھو بیٹھے
جان شیریں سے ہاتھ دھو بیٹھے
آئنہ ہے جسم آنکھیں پڑگئیں جس عضو پر شکل سرو اس میں عیاں اے حور آنکھیں ہوگئیں
(۱۸۵۲ ، دیوان برق ، ۲۴۱)
قلم جب بناویں تو نیچے کی جانب اور اوپر کے حصے کی جانب قریب قریب آنکھ چھوڑ دینی چاہیے .
-
لیا نہ دل مرا اک بوسے پر وہ یوں بولا
ہماری آنکھ میں اتنے کا تو یہ مال نہیں
مجھے دونوں آنکھیں براہر ہیں جو بڑی کو دونگی وہی چھوٹی کو دونگی .
(۱۸۹۵، فرہنگ آصفیہ ، ۱ : ۱۵۳)
سن کر سقر کے نعرۂ ہَل مِن مَزید کو
آنکھیں تری چلی گئیں دوزخ کی دید کو
دیکھا زرہ نے چار طرف رن میں بارہا
حداد نے بنائی ہیں آنکھیں ہزار ہا
وہ تیغ تیز آئنہ پیکر پری نثراد
قبضے کی آنکھ ، نون کی سورت پہ حق کا صاد
وہ دائروں کی آنکھ نہیں وہ نظر نہیں
فعلوں کا ہے یہ حال کہ اک حال پر نہیں
مشک کو زد سے ہر اک طرح بچاتا ہے جری
آنکھ کی ڈھال پہ اک تیر کو روکا ہے ابھی
میری داہنی آنکھ میں پانی اتر آیا ہے .
(۱۹۱۳، مکاتیب حالی ، ۷۷)
خوردبین کی آنکھ کے نیچے رکھ کر دیکھ سکتی ہے .
(۱۹۲۹، نفسیات اور ہماری زندگی ، ۱۷)
مسافر کے لیے لازم ہے کہ سفر کے آداب سے واقف ہو ، ایک خاص شریفانہ رفتار سے تجاوز نہ کرے ، سرخ آنکھ نظر آئے تو رک جائے ، سبز آنکھ نمودار ہو تو چل پڑے .
(۱۹۷۵، وزیر آغا ، ماہنامہ ’ الشجاع ، سالنامہ ، کراچی ، ۳۹)
جنگل میں ایک درخت ہوتا ہے جس کو آنکھ یا آک کہتے ہیں. اس کے پھول بالکل آنکھوں کی شکل کے ہوتے ہیں .
(۱۹۵۵، حسن نظامی ’ پھول ، ۲۴ )
س
[ س : اَکْشِ आक्षि ]