بس ایک دم کے ہیں سب آشنا ابھر کے نہ چل
کسی سے آنکھ یہاں پر نہ اے حباب ملا
مارے غصے کے میں نے ڈپٹی صاحب سے آنکھ تک نہ ملائی .
(۱۹۰۵، لیکچروں کا مجموعہ (نذیر) ، ۲ : ۴۳۰)
شرم آتی ہے آنکھ اس سے ملاؤں گی میں کیونکر
رسّی کے نشانوں کو چھپاؤں گی میں کیونکر
توبہ کو منہ لگا کے خجل ہوگئے جلیل
جام و سبو سے آنکھ ملائی نہ جائے گی