تین دن رات اسی خوف و رجا میں گزری ہر گز آنکھ نہ جھپکی .
(۱۸۰۲، باغ و بہار ، ۱۶۱)
آنکھ نرگس کی نہیں ہر گز جھپکتی اس لیے
ایک لمحو میں بہار گلشن عالم نہیں
وی امیر ہیں تو ہوں ہماری بھی آنکھ کبھی ان سے نہیں جھپکی .
۱۸۹۱، امیراللغات ، ۱ : ۲۴۲
آنکھ جمشید و فلاطوں سے جھپکنے کی نہیں
ہم بھی ہیں خاک نشین در میخانۂ عشق