دیکھ کر عکس آئنے میں آنکھ اس کی پھر گئی
اپنے سائے سے گریزاں آپ یہ آہو ہوا
ہاتھ اٹھا پانو بڑھا سینہ تنا آنکھ پھر
ناچ میں تیرے قیامت کبھی ایسی تو نہ تھی
وہ مست ہوں پھرے جو ذرا محتسب کی آنکھ
رکھوں سبو و بادہ و پیمانہ دوش پر
مجھ سے اب وہ نہ رہی اس بت عیار کی آنکھ
پھر گئی آہ زمانہ کی طرح یار کی آنکھ
آنکھ اس کی پھر گئی تھی دل اپنا بھی پھر گیا
یہ اور انقلاب ہوا انقلاب میں
آنکھ تیری جو پھری پھر گئی ساری دنیا
انتہا ہے کہ مخالف ہے مرا دل مجھ سے
اس کی جب آنکھ پھری پھرگئیں اس کی آنکھیں
شیفتہ مرنے پہ تیار ہی کیا پھرتا تھا
آنکھیں پھر جانا کنایہ ہے احتضار کے وقت دونوں آنکھوں کی زینت بدل جانے سے .
(۱۹۳۲، ریاض ، نثر ریاض ، ۱۵۰)