چشمک اس مہ کی سی دلکش دید میں آئی نہیں
گو ستارہ صبح کا بھی آنکھ جھپکانے لگا
عشرت نے پلٹ کر اس کی طرف دیکھا آنکھ جھپکائی گویا وہ ایسی بات دیکھ رہی تھی جس پر کسی طرح یقین نہ آتا ہو .
(۱۹۵۴، شاید کہ بہار آئی ، ۹)
فلک پر آنکھ کو بہرام کی بھی جھپکا دیں
دکھائیں تیغ کے جوہر جو چشم خشم آگیں
چہرۂ انور ترا دیکھا ہے یہ ممکن نہیں
آنکھ جھپکائیں فروغ نّیِر اعظم سے ہم
چین مجھ کو نہ ملا آنکھ کے جھپکانے میں
غل مچایا کیے وہ محو ہوا گانے میں
رات بھر بیتابیوں کی کچھ تلافی چاہیے
صبح نے بیمارغم کی آنکھ جھپکائی تو کیا
دم نظارہ رخ رنگین
برق عارض نے آنکھیں چھپکادیں