اپنے بھائی اور اپنی ہم کنار جورو اور اپنے لڑکوں سے . . . آنکھ بدلے گا.
(۱۸۲۸ ، موسیٰ کی توریت مقدس ، ۸۰۰)
وہ اپنی دھن کا پکا ہے جو بدلی آنکھ تو بدلی
بندھے پانی کی یہ لہریں لکیریں سمجھو پتھر کی
کنار دریا پہنچ کے پانی نہیں پیا ایک بوند اس پر چڑھی ہے موجوں کی ہم سے تیوری حباب آنکھیں بدل رہے ہیں
(۱۸۷۰ ، دیوان اسیر ، ۳ : ۲۶۰)
آنکھیں بدل کے فوج ستمگار پر جو آئے
پامرد جو بڑے تھے قدم ان کے تھرتھرائے