کیا تقویٰ تھا کہ راہ میں بھی اس خیال سے آنکھ جھکا کے چلتے تھے کہ کسی نا محرم پر نظر نہ پڑ جاۓ .
(۱۸۹۲، امیراللغات ، ۱ : ۲۲۲)
مخاطب ہیں وہ نرگس سے چمن میں
جھکاۓ آنکھ ہم شرما رہے ہیں
ہم ہیں خاموش اِدھر آنکھ جھکاۓ وہ اُدھر
یار سے سابقہ پہلا ہے ملاقات نئی
ملا کے آنکھ نہیں روز آپ کہتے ہیں
جھکا کے آنکھ ذرا ایک بار ہاں تو کریں
اک چال کسی سُور کی ور اس پہ نہ آئی دی جس نے جھکائی وہیں آنکھ اُس کی جھکائی
(۱۹۱۲، شمیم ، مرثیہ ، ۱۶)
یہ لڑکی جب سینے پرونے پر آنکھ جھکاتی ہے تو پھر پہروں نظر نہیں اٹھاتی .
(۱۸۹۱، امیر اللغات ، ۱ : ۲۲۲)
آنکھیں جھکا کے بولے یہ مولاے مشرقین
میں ہوں حسین احمد مرسل کا نور عین