تیو نہیں بادشا ہزادے کی آنکھ کھل جاتی ہے .
(۱۷۴۶، قصۂ مہر افروز و دلبر ، ۱۱۸)
تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ
جب آںکھ کھل گئی تو زیاں تھا نہ سود تھا
آج تین بجے سے کچھ پہلے آنکھ کھل گئی تھی.
(۱۸۴۲، غبار خاطر ، ۶۸)
کھل جائے اپنی آنکھ معطر دماغ ہو
غش میں جو وہ پری ہمیں آکر سنگھائے زلف
جب آنکھ کھلی تو کیا دیکھتی ہوں کہ چھی پیگم کے میاں کھڑے مجھے کوئی خؤشبو سنگھا رہے ہیں .
(۱۹۶۱، ہالہ ، اے - آر- خاتون ، ۹۲)
مجھے ترکۂ پدری سے جو دو لت ہاتھ آئی عیاشی میں اندھے کی طرح اوڑائی آنکھ اس وقت کھلی جب سب کھو یا تکلیف و ایذا اٹھائی .
(۱۸۶۲، شبستان سرور ، ۸۲)
میاں اس وقت نہیں بولتا تو کبھی آنکھ کھلے ہی گی آخر مرد ہے .
(۱۹۱۰، لڑ کیوں کی انشا ، ۱۶)
اس گلشن ہستی میں عجب دید ہے لیکن
جب آنکھ کھلی گل کی تو موسم ہے خزاں کا
گلزار کسے کہتے ہیں گل نام ہے کس کا
صیاد ہماری تو کھلی آنکھ قفس میں
زندگی پاتے ہی اعزاز وفا کو دیکھا
آنکھ کھلتے ہی خدائی میں خدا کو دیکھا
نہ دیکھا اس کے سوا کوئی جب کھلیں آنکھیں خدا صنم کو میں سمجھا جو ہوشیار ہوا
(۱۸۳۶، ریاض البحر ، ۶۳)
فرشتے بھی دیکھیں تو کھل جائیں آںکھیں بشر کو وہ جلوے دکھائے گئے ہیں
(۱۹۰۵، داغ ( امیر اللغات ، ۱ : ۲۸۱)) .