تم اور گل رخاں سیں اب آنکھ جو لگائے
بادام کوں پیارے پھولوں کے بیچ باسا
آنکھ کیا یار سے لگائی ہے
جسم و جاں میں بہم لڑائی ہے
اچھن صاحب سے ہاں نہ کرنا ، بی حمیدہ ان سے آنکھ لگا چکی ہے.
(۱۹۴۰ ، آغا شاعر ، ہیرے کی کنی ، ۲)
کہتی ہے یہ نرگس کہ اڑیں باغ سے بلبل
دم بھر کو مجھے آنکھ لگانے نہیں دیتے
نہیں ہے شیفتہ در پردہ تجھ پہ غیر تو کیوں
لگائی آنکھ ترے شہ نشیں کے پردے پر
دیکھا جسے وہ آنکھ پھرا کر چلا گیا
کیا اس سمیں میں آنکھ پھرائیں کسوسے ہم
یہ کہنا تھا کہ دو سونے کے تھکے
لگائے آنکھ ان پر تھے اچکے
اس کوشش سے عزیزان وطن کو جو میرے خط سے آنکھ لگائے بیٹھے ہونگے اپنے شوق و انتظار کا صلہ مل جائے گا .
(۱۹۱۲، شبلی ، مکاتیب ، ۱ : ۹)
ایک دن بھی نہیں دن رات میں آنسو تھمتے
جان کو روگ لگایا کہ لگائیں آنکھیں
سب نے سوے در لگائیں آنکھیں
نرگس نے مگر بچھائیں آنکھیں