آنکھ اس کی نہیں آئنے کے سامنے ہوتی
حیرت زدہ ہوں یار کی میں شرم و حیا کا
سید کاظم خود ہی ملنے آیا تو ملنا پڑا ، ظہیر ملا تو سہی مگر آنکھ سامنے نہ ہوتی تھی .
(۱۹۳۰، حیات صالحہ ، راشد الخیری ، ۸۳)
آنکھ کچھ اپنی ہی اس کے سامنے ہوتی نہیں
جس نے وہ خونخوار سج دیکھی دہل کررہ گیا
تلوار کھینچ لی تھی جو شاہ انام نے
منھ پر سپر تھی آنکھ نہ ہوتی تھی سامنے
آئینے کے بھی سامنے آنکھیں نہیں ہوتیں
قائل میں ہوا یار تری شرم و حیا کا