مندی جاتی ہیں آنکھیں بسکہ شبہاے جدائی میں
سحر تک شام سے خوابیدہ طالع نے جگایا ہے
مت رکھ خیال ہستی نا پایدار پر
جب آنکھ مند گئی تو یہ سب خواب ہوگیا
ملک شرف علی کی گر سیر نہیں
جب آنکھ مندی خاتمہ بالخیر نہیں
مند گئیں ، کھولتے ہی کھولتے آنکھیں ، غالب
یار لائے مری بالیں پہ اسے ، پر کس وقت