آنکھ سے آنکھ تصور میں لڑی رہتی ہے
نرگس خلد کے کرتے ہیں نظارے مشتاق
چشم شیریں جو سنان سر سرور پہ پڑی
آنکھ سے آنکھ لڑی ٹوٹی اک اشکوں کی چھڑی
اس لڑکی کی بھی آنکھ اس برہمن مہر طاعت کی آنکھ سے لڑی .
(۱۸۰۱، طوطا کہانی ، ۴۹)
کبھی جو یار کی آنکھوں سے لڑ گئیں آنکھیں
مژہ کے تیر کلیجے کو توڑ کر گزرے