لڑاؤ گے تم عکس سے اپنے آنکھ
نہ واقف تھا اس جنگ سے آئنہ
کسی کو جھانک کے دیکھ لیا کسی کو تاک کے دیکھ لیا یعنی آنکھ لڑائی .
(۱۹۲۴، اختری بیگم ، ۲۸)
جی مرا دیکھ کہ اس مہ سے لڑا تے ہیں ہم آنکھ
جس کو خورشید نے بی پنجہ نظارہ نہ کیا
گھر سے باہر یہ کہا کس نے کہ آیا کیجے
روزن در سے ذرا آنکھ لڑایا کیجے
بھاگنے کو جو قدم پیچھے ہٹاتا تھا شقی
آنکھ تلوار کے قبضے سے لڑا تا تھا شقی
دل کو کھینچے ہے چشمک انجم
آنکھ ہم نے کہاں لڑائی ہے
اے ریاض آنکھ لڑا تے ہوے جی ڈرتا ہے
زخم پہنچے ہیں حسینوں کی نظر سے کیا کیا
لڑائی آںکھ دوپٹے کی اوٹ غیروں سے
نگاہ کیجیو اس مہ جبیں کے پر دے پر
بڑی آنکھ لڑا نے والی لونڈیا ہے اور بڑے کرارے ہاتھ پاؤں ہیں .
(۱۹۰۳، سر شار ،خدائی فوجدار ، : ۱۶۷۱)
تھمارے سامنے جب تک رہے لڑاؤ آںکھ
غروب ہو ے تو یہ جان لو کہ ہارا چاند
موج رواں ہمیشہ سورج سے آنکھ لڑاتی ہے .
(۱۹۱۲، سی پارۂ دل ، ۲۲۱)
لڑائیں غیر سے آنکھیں سبب ہے یہ لڑائی کا وگرنہ ان کی اور میری لڑائی یوں بھی ہوتی ہے
(۱۸۴۹، کلیات ظفر ، ۲ : ۱۶۶)
یہ کیا کہہ کر کیا مجبور اسے آنکھیں لڑانے پر نظر ہو جس کی شرمیلی وہ قتل ہو نہیں ہوسکتا
(۱۹۴۸، اعجاز نوح ، ۱۵)