قرار اس شعلہ روکے ہجر میں کیا خاک پاتا ہوں
نظر آتی ہے اک آتش جدھر کو آنکھ اٹھاتا ہوں
نیچی نگاہ کرکے جو بیٹھی تو پھر آنکھ اٹھانی قسم ہوگئی .
(۱۹۰۸، صبح زندگی ، ۱۵۲)
جب آنکھ اٹھائی ہستی سے جب نین لگے مٹکانے کو
سب کاچھ کچھے سب ناچ نچے اس رسیا چھیل رجھانے کو
دعوت کی اسے خبر سنائی
دیووں کے رخ اس نے آنکھ اٹھائی
تھی وغا میں جو وہ پابند امام عالی
جس طرف آنکھ اٹھائی ہوا میداں خالی
ماتم کیا نہ ورئے نہ حالت تباہ کی
آنکھیں اٹھائیں سوے فلک اور آہ کی