وہ عندلیب ہوں سمجھوں کہ ہاے برق گری
اٹھا کے آنکھ جو صیاد آشیاں دیکھیں
دیکھا جو آنکھ اٹھا کے شہ دیں نے ایک بار
سایہ کیے تھے فرق پہ جبریل نامدار
وہ آنکھ اٹھا کے نہ دیکھے سلام بھی نہ لیا
نگاہ روبرو گو چوبدار کہتا تھا
دیکھا جو آنکھ اٹھا کے تو میداں سے تا فرات
چھائی تھی مثل ابر سیہ فوج بد صفات
آنکھ اٹھا کر دیکھ تو اے یار میری بھی طرف
کب سے ہوں میں منتظر صاحب سلامت کے لیے
بھر گیا دامن نظارہ گل نرگس سے
آنکھ اٹھا کر جو کبھی تونے اِدھر دیکھ لیا
میرے پیمانۂ امید کا بھرنا معلوم
کبھی دیکھا ہے مجھے آنکھ اٹھا کر تونے
دیکھوں ہوں آنکھ اٹھا کر جس کو تو یہ کہے ہے
ہوتا ہے قتل کیونکر یہ بے گناہ دیکھوں
حضرت نے آنکھ اٹھا کے جو دیکھا اِدھر اُدھر
کوئی نہ تھا فرس سے اتارے جو تھام کر
اگر کوئی تمھاری جانب آنکھ اٹھا کر دیکھے تو تلووں سے مل ڈالوں .
(۱۸۹۲، خدائی فوجدار ، ۲ : ۳۵)
کس کی مجال ہے جو آپ کو آنکھ اٹھا کر دیکھ سکے .
(۱۹۱۷، یزید نامہ ، حسن نظامی ، ۶۱)
آنکھ اٹھا کر دیکھو اور آنے والے زمانے پر غور کرو .
(۱۸۷۳، مکمل مجموعۂ لیکچرز و اسپیچز ، ۸۱)
مثال کے لیے دیکھو : آنکھ اٹھا کر (بھی) نہ دیکھنا .
-
آنکھ اُٹھا کر بھی جو دیکھا ہو تو آنکھیں پھوٹیں
تہمتیں ہم پہ غزالان حرم لیتے ہیں
جدھر دیکھا اٹھا کر آنکھ شام غم نظر آئی
نظر کے راستے مسدود ہیں زلف پریشاں سے
کچھ نہیں کہتے اگر آنکھیں اٹھا کر ایک دم
دیکھ تو لو حال اے خستہ دلوں کے قدر داں