یہ زیست سے خفا ہوں کہ کرلوں میں آنکھ بند
چشمہ نظر پڑے اگر آب حیات کا
اللہ رے چھوٹ روے شہ ارجمند کی
ذرے جو چمکے آنکھ ستاروں نے بند کی
بند کرلیں مری جانب سے کچھ ایسی آنکھیں
کوئی خط بھی نہ کبھی اہل وطن کا آیا
بغداد کے کارناموں سے آنکھیں بند کرلینا تو اپنی میراث کو ٹھکرانا ہے .
(۱۹۴۶، تعلیمی خطبات ، ڈاکٹر ذاکر حسین ، ۲۰۶)
غم کھانے کو ایک رہ گئے ہم
آنکھیں یاروں نے بند کرلیں
جس دن سے میاں نے آنکھ بند کی برقعہ ان کے سر پر تھا .
(۱۹۳۲، اخوان الشیاطین ، ۳۱۰)
ذرا آنکھ بند کرتا ہوں لڑکے غل کر کے جگا دیتے ہیں .
(۱۸۹۱، امیراللغات ، ۱ : ۲۱۵)
ہم ضعیفوں کو کہاں آمد و شد کی طاقت
بند کی آنکھ ہوا کوچۂ جاناں پیدا
اکثر دم تصور وقت ظہور آیا
آنکھیں جو بند کرلیں آنکھوں میں نور آیا