صبح سے جو لکھنے بیٹھتا ہے تو شام تک آنکھ نہیں اٹھاتا .
(۱۸۹۱، امیر اللغات ، ۱ : ۲۴۱)
قسم کھا چکا ہوں کہ ایک سو سے نیچے کسی رقم کی طرف آنکھ نہ اٹھاؤں گا .
(۱۹۲۲، گوشۂ عافیت ، ۱ : ۱۷۹)
روز وصال میں بھی اٹھاتے نہیں وہ آنکھ
بچھی ہی رہتی ہے صف مژگاں تمام دن
مڑکے فرار نگاہوں کو ملاتے ہی نہ تھے
بانو اٹھتے تھے مگر آنکھ اٹھاتے ہی نہ تھے