حیرت سوں آنکھ اپس کی نہ موندے حشر تلک
یک پل ہو اس نزک جو گزار آرسی کے تئیں
بلواؤ اپنے گھر میں کس بات کی کمی ہے
بیٹی سے تم نے اپنی کیوں آنکھ موند لی ہے
چمن میں نرگس شہلا نے موندلی یوں آنکھ
ہو جس طرح کسی بیمار پر غشی طاری
بلبل نے جس کا جلوہ جا کر چمن میں دیکھا
وہ آنکھ موند اپنی ہم من ہی من میں دیکھا
عین مستی میں ہمیں دید فنا ہے انشا
آنکھ جب موندتے ہیں سیر عدم کرتے ہیں
جوں آئینہ کب تلک پریشاں نظری
اب موندیے آنکھ بس جہاں کو دیکھا
تمام اعبال حسنہ آنکھ موندی اور قطع ہوئے
(۱۸۹۸ ، سر سید ، مضامین تہذیب الاخلاق ، ۴۸)
آنکھیں نرگس نے موند لیں جھٹ
چہرے پہ کیا صبا نے گھونگھٹ
اکثر دم تصور وقت ظہور آیا آنکھیں جو موند لیں تو آنکھوں میں نور آیا
(۱۹۵۳ ، گلستان نسیم ، ۱۱۰)