وہ چھاتی پہ الماس کی دھکدھکی
رہے آنکھ سورج کی جس پر جھکی
کیا عجب ہے جو جھکی رہتی ہے تیری یار آنکھ
بیشتر کم کھولتے ہیں مردم بیمار آنکھ
یہ بار منت شہ ہے کہ سارے عالم کی
جھکی ہے آنکھ بھی اٹھتی نہیں ہے گردن بھی
گلزار جہاں میں یہ دعا ہے کہ عدو سے
آنکھیں نہ جھکیں نرگس بیمار کی صورت
تھی خطا ان کی مگر جب آ گئے وہ سامنے
جھک گئیں میری ہی آنکھیں رسم الفت دیکھیے