فی الحقیقتہ دانۂ کنجد چراغ افروز ہے
آنکھ کا تارا ہوئی خال صنم کی روشنی
نور عین اللہ ہے ارض و سما میں ضوفشاں
آنکھ کا تارا زمیں پر ہے فلک پر آفتاب
کچھ لال چڑے پودنے پدی ہی نہ غش تھے
پدڑی بھی سمجھتی تھی اسے آنکھ کا تارا
آنکھ کا تارا گھر کا اجیالا اللہ آمین کا ایک لڑکا .
(۱۹۳۱، رسوا ، خورشید بہو ، ۸)
دھوتی تھی ہر دم میں جن کے پیرہن سو مری آنکھوں کے تارے کیا ہوئے
(۱۷۸۰، سودا ، ک ، ۲ : ۲۳۰)
ستارہ جان کو پیارا جو ہو وہ مجھ کو پیارا ہے بس اے مہرالنسا ملکہ مری آنکھوں کا تارا ہے
(۱۸۷۹، جان صاحب ، د ، ۲۰۹)
دہلی تمام ہندوستان کی آنکھوں کا تارا ہے .
(۱۹۲۲، سیر دہلی کی معلومات ، ۱)