ہو طبیعت یہ اگر اس کی غضب مستولی
اور وہ دیکھے کبھی گاہ غضب آنکھ نکال
مجھ پر نکالی آنکھ نکیرین نے عبث
داغ سجود بعد فنا بھی جبیں میں تھا
آنکھ اس ترک نے نکلوائی
سامنے پھر جو آتش اب کی آنکھ
اس کو ڈر تھا کہ کہیں میری آنکھ نہ نکال لی جائے .
(۱۹۶۳، ساڑھے تین یار ، ۱۲۳)
شب تاریک ہجر میں شب بھر
ہر ستارے نے کیا نکالی آنکھ
ایسا نہ ہو کہ پیارے دم میں کسی کے آجا
جو بد نگہ سے دیکھے آنکھیں نکال کھا جا
دیکھا آنکھوں کو میں نے کس دن
مجھ پر نہ عبث نکال آنکھیں
جنہوں نے مرکر اور مٹ کر ہم کو اس قابل کیا ، کیا اس سلوک کے لائق ہیں کہ ہم ان پر آنکھیں نکالیں .
(۱۹۳۶، راشدالخیری ، نالۂ زار ، ۸)