جب کروں سیر باغ گل رو بن
پھول پھولا ہو آنکھ میں کھٹکے
گزرتا ہے سلامت واقف انجام مطلب سے
نہیں رستا کھٹکتا آنکھ میں دہقاں کے بیہڑ کا
حمیر چونکہ ایران کے طرفدار تھے اس لیے بھی وہ رومیوں کی آنکھ میں کھٹکتے تھے .
(۱۹۶۵، ارض القرآن ، ۱ : ۳۱۲)
ان کی آنکھوں میں میں کھٹکتا ہوں
یہ بھی کاوش مرے مقدر کی
خلیفۃ المسلمون . . . کی حکومت مغرب کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکنے لگی .
(۱۹۱۵، حکومت اورنگ زیب کی اصل تاریخ ، ۹۹)