کشتۂ تیغ تغافل ہوں میں کھولوں گا نہ آنکھ
شور محشر آکے تربت پر نہ چلائے بہت
ناز و شرم حجاب سے لیکن
کھولتی تھی نہ آنکھ وہ کمسن
کم ہووے نہ عاشق کے کبھی اشک کا باراں
ممکن ہی نہیں کھولے یہ ساون کی جھڑی آنکھ
غرور و ناز سے آنکھیں نہ کھولیں اس جفا جو نے
ملا پاؤں تلے جب تک نہ چشم صد غزالاں کو