اس سے ہمیں خوف ہے کہ ایسا نہ ہو یہ اب بھی ہماری آنکھ میں خاک جھونک کے بھاگ جائے .
(۱۸۹۲، خدائی فوجدار ، ۱ : ۱۴۰)
حیرت ہے میرا گارد جگہ جگہ مقرر تھا، شب کو اس کی تلاش بھی تھی اتنے سپاہیوں اور نگہبانوں کی آنکھ میں خاک جھونک دی .
(۱۹۳۱، رسوا ، بہرام کی رہائی ، ۶۸)
دوڑا جو دیکھنے کو سواری میں یار کی
آنکھوں میں خاک ڈال کے گھوڑا ہوا ہوا
امن و انصاف کے مدعی آفتاب نے . . . ہٹ دھرمی سے دنیا کی آنکھوں میں خاک جھونکی ہے .
(۱۹۳۶، شہید مغرب ، ۱۹)