یہ کس نے آنکھ پھیری ہے کہ ایسی تیرگی چھائی
زبان آہوے صحرا بنی ہر شمع محفل کی
پتلیاں میری پھری دیکھ کے بولے دم نزع
بے وفا آنکھ یو ہیں پھیر لیا کرتے ہیں
سب کی رجوع یاس میں ہوتی ہے سوے حق
پھیری بتوں نے آنکھ خدا پر نظر گئی
نرغے میں ہم ہیں سوتے ہو کیا رن میں چین سے
تم نے بھی آنکھ پھیر لی بیکس حسین سے
جو منہ چڑھے اُس کو قتل کرے رحم سے آنکھ پھیرے
(۱۸۶۲، شبستان سرور ، ۲۳۶)
وہ تو کبھی میری طرف سے آنکھ نہیں پھیرتا .
(۱۹۱۰، آپ بیتی ، ۱۰۵)
حسرت دیدار نے پیدا کیا حال ردی
پھیر دے گا اب کوئی دم میں ترا بیمار آنکھ
پھر صبر کس طرح ہو جو دل کو نہ کل پڑے
پھیری جو آنکھ شہ کے بھی آنسو نکل پڑے
پھیر لیں آنکھیں مژہ سے نیش عقرب کی طرح
کا کل پیچاں کے بدلے مار پیچاں دیکھیے
اب کی تو مروا ہی ڈالا تھا اور آپ نے بھی آنکھیں پھیرلی تھیں .
(۱۹۰۳، سرشار ، خدائی فوجدار ، ۱ : ۹۳)