ایک دم بھگوان کے دھیان سے سر نہیں اُٹھاتے اور کسی سے آنکھ نہیں ملاتے .
(۱۸۰۱، طوطا کہانی ، ۱۳)
عام ہے دولت نظارہ دم محشر ہے
آج تو آنکھ شہ حسن غریبوں سے ملا
کس کے آنے کی فلک پر ہے خبر آج کی رات
آنکھ سورج سے ملاتا ہے قمر آج کی رات
آج ہمیں ایک ایسی شریعت کی ضرورت ہے جو اسلام کی روح کے مطابق تو ہو لیکن عصر حاضر سے بھی آنکھ ملا سکتی ہو .
(۱۹۶۶، ماہنامہ ’ نصرت ‘ لاہور ، ۱۲ : ۱۳)
دیکھنا ہم کو تو پھر آنکھ ملانا سب سے
دھڑکے کیونکر نہ مرا ایسے اشارات سے دل
نہ بن ملے جسے پڑتی تھی کل تماشا ہے
رکے ہے اب تو وہ آنکھیں ذرا ملانے سے
مجھ سے آنکھیں تو ملا اے دشمن سوز و گداز
تجھ پہ کیا اضداد کی توحید کا افشا ہے راز