پھرائی آنکھ اس نے مرگئے ہم
ادا کافر کی پیغام قضا ہے
خوش ہو کے عبث مجھ کو ستا لیتا ہے
تنتی ہیں بھویں آنکھ پھر لیتا ہے
بو گل کی جو اس بلبل ناشاد نے پائی
نملین پہ منہ رکھ دیا اور آنکھ پھرآئی
ہنگام نزع شکل دکھا کے چلا گیا
وہ الٹے پائوں آنکھ پھرا کے چلا گیا
کھینچا جو تیر روح پہ صدمے گزر گئے
آنکھیں پھرا کے اصغر بے شیر مر گئے