جوش حیرت نے نہ ہم کو دیکھنے دی شکل یار
جو ہماری آنکھ کا پردہ ہے پردا ہو گیا
مردم کی بصارت بھی عدم کو ہوئی راہی
وہ رات تھی یا آنکھ کے پردوں کی سیاہی
اک پل بھی جدا دیدۂ ترے نہیں ہوتا
اب آںکھ کا پردہ ہوا رومال ہمارا
بس ایک عذر مشیت تھا بے نقابی میں
فقط اک آنکھ کا پردہ تھا بے حجابی میں
سامنا اس سے ہوا تو بھی نگاہیں نہ ملیں
اٹھ گئے پردے مگر آنکھ کا پردہ نہ گیا
اس گھرانے سے جو مختص تھا وہ شیوہ نہ گیا
کھل گئے بال مگر آنکھ کا پردہ نہ گیا