ہماری آنکھ دوڑے جس طرح اس بحر خوبی پر
جہاز ایسا کہاں پانی کے اوپر تیز چلتا ہے
یوں چرخ تک گیا یہ فرس اڑ کے بارہا
جس طرح آنکھ دوڑتی ہے دم میں تا سما
خاک پر بھی دوڑتی ہے چشم مہر و ماہ چرخ
کس دنی الطبع کے گھر جا کے میں مہماں ہوا
بڑا ہی لالچی ہے ذرا سی چیز پر آنکھ دوڑتی ہے .
(۱۹۲۴، نوراللغات ، ۱ : ۱۵۹)
ناگہاں آگئے خیمے میں امام اکرم
آنکھیں دوڑیں سوے در لینے کو حضرت کے قدم