شہر بانو تمام رات رو رو کر آنکھوں میں کاٹی تھی کہ وقت صبح ہجوم فکر و غم سے آنکھ لگ گئی .
(۱۷۳۲ ، کربل کتھا ، ۱۹۵)
آنکھ نہ لگنے سے سب احباب نے
آنکھ کے لگ جانے کا چرچا کیا
نیند اپنی اڑگئی صفت سایۂ پری
اک غیرت پری سے لگی آنکھ خواب میں
آنکھیں حسینوں کی ہیں لگی خط یار پر
ہوتا ہے آہووں کو تعلق گیاہ سے
آمنہ کی آنکھیں دروازے پر لگ رہی تھیں .
(۱۹۳۶، حیات صالحہ ، ۴۳)