انداز کچھ نرالے ہیں ان کے شکار کے
آہو پہ پھیرتے ہیں چھری آنکھ مار کے
جدھاں تے دیکھ اچپل یوں مجھے جو آنکھ مارا ہے
تدھاں تے بے قراری کا بچھو خوں ڈانک مارا ہے
ترا تھا ڈر کہ نہ دیکھا بہت اسے شب وصل
ستارۂ سحری مجھ کو آنکھ مار رہا
پاس سے اٹھ کے بھی وہ جائیں روکیں بھی آنکھ مار کے
اب رہے کون آپ میں دوڑ پڑے پکار کے
یوں نہیں کرتے اشارے سامنے بیمار کے
مار ڈالا نرگس شہلا کو آنکھیں مار کے