طبیعت گر نہ یکبار اس طرح سر کار کی پھرتی
تو پتلی آنکھ کی کیوں آپ کے بیمار کی پھرتی
ناگہاں سانس اٹکنے لگی ہچکی آئی
پھر کے تو آنکھ کی پتلی نے قیامت ڈھائی
منتظر ہی رہے دیدار کے ہم وقت اَخیر پتلیاں پھر گئیں آنکھوں کی وہ آکر نہ پھرے
(۱۹۰۵، یاد گارداغ ،۱۸۱)