کچہری میں چار طرف آنکھ دوڑائی مگر کوئی جان پہچان نہ ملا کہ ضامن ہو جاتا .
(۱۸۹۱، امیراللغات ، ۱ : ۲۲۲)
ہوئے سو گوش گل پیدا جہاں شہ کی صدا پہنچی
کھلے نرگس کے سو تختے جدھر کو آنکھ دوڑائی
ہر طرف مجمع اغیار ہی دیکھا ہم نے
آنکھیں دوڑائیں تری بزم میں کیا کیا ہم نے