جگایا انھیں پاؤں کو داب کے
اٹھے آنکھ ملتے ہوتے خواب سے
منہ دھونے جو آنکھ ملتی آئی
پُر آب وہ چشم حوض پائی
آنکھ مل کر جو نظر کی سوے میدان جہاں
ذرہ ذرہ میں نظر آیا رخ جان جہاں
آنکھیں ملے اٹھا ہے اگر سو کے آفتاب
لازم ہے آئے سامنے منہ دھو کے آفتاب
آنکھیں بھی ملتے ہیں مگر سوجھتا کچھ نہیں ہے آب
چونکے ہیں خواب سے جو ہم جلوۂ یار دیکھ کر