باغ میں اس کو بہت دھیان ہے خوش چشمی کا
آنکھ نرگس کو ذرا اپنی دکھاتے جاتے
آنکھ اس ادا سے اس نے دکھائی کہ ہم نے شوق
چپکے سے اپنا مے کا بھر جام رکھ دیا
فرشتے آنکھ دکھا کر کسے ڈراتے ہیں
قتیل چشم ہیں مارے ہوئے نظر کے ہیں
لیکن جب آکے آنکھ دکھاتا ہے قرض خواہ
حیلے بہانے پر بھی ہے مجبور آدمی
جب لے چکے دل کو تم تو دکھلائی وہ آنکھ
جس آنکھ نے کیفیت سجھائی کیا کیا
لطف کی پہلے تو امید دلائی اے حر
جب پڑا وقت تو نواب آنکھ دکھائی اے حر
گلشن میں گل سے کر رہی ہے شوخ چشمیاں
نرگس کو چل کے آنکھ دکھائیں حضور آپ
ساقیا دل میں جو توبہ کا خیال آتا ہے
دور سے آنکھ دکھاتا ہے ترا جام مجھے
منہ پھیر کے ایک مسکرائی
آنکھ ایک نے ایک کو دکھائی
راہی قمر درنجف تھا جو سفر کو
ہر ذرۂ رہ آنکھ دکھاتا تھا گہر کو
دم خم جوانی کو شرمندہ کرتے تھے بڑھاپے کو آنکھ دکھاتے تھے چہرہ با رعب تھا .
(۱۹۱۲، یاسمین ، ۲۳)
حضرت دل کیا کرتے ہو شکوہ آنکھیں دکھانے کا ان سے
کچھ نہ کہو تقدیر میں جو کچھ دیکھنا ہے سو دیکھو تم
شوق سے آنکھیں دکھاؤ مجھے کچھ رنج نہیں
شعبدہ یہ بھی تو اک گردش ایام کا ہے