گل شکل گوش ہے تری گفتار کے لیے
نرگس کو آنکھ دی ترے دیدار کے لیے
چلیے نظارۂ بت کم سن کے واسطے
آنکھیں خدانے دی ہیں اسی دن کے واسطے
دی ہے اللہ نے جن شوخ نگاہوں کو آنکھ
تاڑ لیتے ہیں وہ آنکھوں میں نگاہ عاشق
خدا نے آنکھ اسی واسطے دی ہے کہ انسان نیک و بد میں تمیز کرے .
(۱۹۲۴، نوراللغات ، ۱ : ۱۵۹)
وہ یہ کہتے ہیں خدا نے جنھیں دی ہیں آنکھیں
سرمۂ طور سے بہتر ہے غبار عارض
خُلق نے آنکھ دی تبسم کو
خوش مزاجی کی آگئی باری
دیکھا نگہ غیظ سے ان فوجوں کے دَل کو
شمشیر گل اندام نے دی آنکھ اجل کو
تھیں یوں ہی قتل عام پر آنکھیں تلی ہوئی
دی آنکھ اور سرمۂ دنبالہ دار نے
جان کیا تھی کہ عدو ہم سے ملاتے تیور
آنکھ دی آپ نے میں خوب اشارا سمجھا