دیدہ ہوائی ہے آنکھ کا پانی مر گیا ہے چار طرف آنکھیں چکر چکر چلی جاتی ہیں
(۱۸۸۷، طلسم ہو شربا ، ۱ : ۶۴۱)
خدا نہ کرے کسی کی آنکھ کا پانی یوں مر جائے ایسی موئی تو پیدا ہوتے ہی مر جائے تو اچھا ہے .
(۱۹۱۶، اتالیق بیوی ، ۵۱)
ان کی آنکھوں کا پانی مر گیا ، کیسی بے حیائی اس قوم نے اختیار کی .
(۱۹۰۲، آفتاب شجاعت ، ۱ : ۲۳۶)