احوال دل کا کیونکر ان دلبروں سے کہتے
ملتے ہی آنکھ وہ تو خنجر نکالتے ہیں
اک نگاہ مست ساقی نے بڑھادی قدر جام آنکھ ملتے ہی دوبالا رنگ محفل ہو گیا
(۱۹۵۱ ، صفی ، د ، ۱۳)
اس کی آنکھیں کیا ملیں عاشق کی آنکھوں سے بھلا
جتنے آہو ہیں انھیں ہر ایک سے رم چاہیے
بڑھ کر گلے سے شاہ نے حر کو لگا لیا
آنکھیں ملیں تو اس نے نظر کو جھکا لیا