آنکھ آئی ہے .
(۱۲۶۵، بابا فرید گنج شکر ، جواہر فریدی ، ۲۰۸)
اونگھتا بھی نہیں سونا شب ہجراں کیسا
درد سے نیند اڑانے مری آنکھ آتی ہے
روتے روتے سجائی ہیں آن٘کھیں کوئی جانے کہ آئی ہیں آنکھیں
(۱۸۸۰، قلق ( امیراللغات ، ۱ : ۲۱۱)) .
ایسے آشوب میں تلوار چلائیں کیونکر آنکھیں آئی ہیں وہ میدان میں آئیں کیونکر
(۱۹۶۵، فیض بھرت پوری ، مراثی ، ۴۸)