چوہا ہر طرف آنکھ ڈالتا تھا اور یمین و بسار اور تحت و فوق دیکھتا تھا .
(۱۸۳۸، بستان حکمت ، گویا ، ۲۲۴)
نظروں کے لڑتے ہی مری تقدیر لڑ گئی دل اس کے دل میں ڈال دیا آنکھ ڈال کے
(۱۹۰۴، سفینۂ نوح ، ۱۷۹)
ہر کسی نے آنکھ جب ڈالی گلوے صاف پر
ہنس کے فرمایا گلے کا ہار آنکھیں ہوگئیں
عشق کی غیرت سے یہ کیوں کر گوارا ہوسکے
آنکھ ڈالیں غیر تم پر اور میں دیکھا کروں
راکب کے پائوں گھوڑے کے زانوں اڑا دیے
ڈالی کسی نے آنکھ تو ابرو اڑا دیے
تیغ میں جوہر نہ او قاتل سمجھنا اس کو تر
ڈالتی ہے باقی ماندوں پر تری تلوار آنکھ
آنکھوں تلے تھے وہ تو جو لاکھوں سوار تھے
ان پر بھی آنکھ ڈالتی تھی جو فراز تھے
بیٹے کی باپ سے بنی خانم بگڑ نہ جائے
ڈالے بہو پہ آنکھ موا بد شعار باپ